Urdu Deccan

Tuesday, June 15, 2021

خالد محمود نقشبندی

 یوم پیدائش 13 جون 1941


کوئی سلیقہ ہے آرزو کا نہ بندگی میری بندگی ہے

یہ سب تمہارا کرم ہے آقاﷺ کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے


کسی کا احسان کیوں اُٹھائیں کسی کو حالات کیوں بتائیں

تمہیں سے مانگیں گے تم ہی دو گے تمہارے در سے ہی لو لگی ہے


تجلّیوں کے کفیل تم ہو مُرادِ قلبِ خلیل تم ہو

خدا کی روشن دلیل تم ہو یہ سب تمہاری ہی روشنی ہے


تمہیں ہو روحِ روانِ ہستی سکوں نظر کا دلوں کی مستی

ہے دوجہاں کی بہار تم سے تمہیں سے پھولوں میں تازگی ہے


شعور و فکر و نظر کے دعوے حدِ تعیّن سے بڑھ نہ پائے

نہ چھو سکے ان بلندیوں کو جہان مقامِ محمدیﷺ ہے


نظر نظر رحمتِ سراپا ادا ادا غیرتِ مسیحا

ضمیرِ مُردہ بھی جی اُٹھے ہیں جدھر تمہاری نظر اُٹھی ہے


عمل کی میرے اساس کیا ہے بَجُز ندامت کے پاس کیا ہے

رہے سلامت تمہاری نسبت مرا تو اک آسرا یہی ہے


عطا کیا مجھکو دردِ اُلفت کہاں تھی یہ پُر خطا کی قسمت

میں اس کرم کے کہاں تھا قابل حضورﷺ کی بندہ پروری ہے


انہی کے در سے خدا ملا ہے انہیں سے اس کا پتہ چلا ہے

وہ آئینہ جو خدا نما ہے جمالِ حُسنِ حضورﷺ ہی ہے


بشیر کہیئے نذیر کہیئے انہیں سراجِ مُنیر کہیئے

جو سر بَسر ہے کلامِ رَبّی وہ میرے آقاﷺ کی زندگی ہے


ثنائے محبوبِ حق کے قرباں سرورِ جاں کا یہی ہے عُنواں

ہر ایک مستی فنا بداماں یہ کیف ہی کیف سرمدی ہے


ہم اپنے اعمال جانتے ہیں ہم اپنی نسبت سے کچھ نہیں ہیں

تمہارے در کی عظیم نسبت متاعِ عظمت بنی ہوئی ہے


یہی ہے خالدؔ اساسِ رحمت یہی ہے خالدؔ بِنائے عظمت

نبیﷺ کا عرفان زندگی ہے نبیﷺ کا عرفان بندگی ہے


صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

 خالد محمود خالد نقشبندی


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...