نظر کب سے تری جانب گڑی ہے
تمنا ہاتھ پھیلائے کھڑی ہے
مرے چاروں عناصر لڑ رہے ہیں
شکست زیست کی شاید گھڑی ہے
گھمانے سے جسے مقصد ہو پورا
کہاں جادو کی اب ایسی چھڑی ہے
چرانے کے لئے پھولوں سے خوشبو
گلستاں میں ہر اک تتلی اٙڑی ہے
جڑے ہیں شعر میں الفاظ ایسے
کہ جیسے موتی کی دل کش لڑی ہے
مری تقدیر کے آنگن میں کب سے
غریبی بال بکھرائے کھڑی ہے
چھڑی ہے میرے اندر جنگ ہردم
مصیبت مجھ پہ کیسی آ پڑی ہے
بجھانے کے لئے شمع محبت
ہواؤں کو بہت جلدی پڑی ہے
ہوا ہوں جب سے بےگانہ جہاں سے
مری دہلیز پر دنیا کھڑی ہے
مرض جو دل کا جڑ سے ٹھیک کر دے
کوئی دنیا میں کیا ایسی جڑی ہے
کسی بھی کام کا سچ میں نہیں تو
تری ہر بات ہی صابر بڑی ہے
صابر جوہری
No comments:
Post a Comment