یوم پیدائش 13 جون 1958
سمجھ کے گر وقت کا اشارہ نہیں چلے گا
تو رہبری پر ترا اجارہ نہیں چلے گا
حصارِ گرداب توڑ ساحل کو بڑھ کے چھو لے
وگرنہ جانب تری کنارہ نہیں چلے گا
حیات صد شوق عشق کی نذر آپ کیجے
مگر یہاں شکوۂ خسارہ نہیں چلے گا
پناہ گاہیں بھی کم نہیں مقتلوں سے یارو
پرائی چھت کا اب استعارہ نہیں چلے گا
یہ زخم سوغاتِ چشمِ جاناں ہیں چھیڑئے مت
کہ ان پہ جرّاحو بس تمہارا نہیں چلے گا
عمل ضروری ہے زندگی میں سکوں کی خاطر
فقط دعاؤں کا استخارہ نہیں چلے گا
سراج ہے مستحق اِسے دے نہ دے اُسے تو
جو کہہ رہا ہے ترا اتارا نہیں چلے گا
سراج آغازی جبلپوری
No comments:
Post a Comment