Urdu Deccan

Sunday, June 6, 2021

شاعر علی راحل

 ہمارا نام وہ بھی ان کے لَب سے نکلا ہے

سنا ہے ہم نے بڑے ہی اَدَب سے نکلا ہے


ہر ایک آنکھ اسے تَک رہی ہے حسرت سے

کچھ ایسے حسنِ مجسّم وہ ڈَھب سے نکلا ہے


کوٸی مَلال نہیں گر بچھڑنے کا تجھ کو

یہ اشک آنکھ سے پھر کس سَبَب سے نکلا ہے


وہ معتبر ہوا دونوں جہان میں یکساں 

مرے حضور کے جو لفظ لَب سے نکلا ہے


کبھی خدا سے تجھے مانگا ہی نہیں میں نے

کہاں وگرنہ تو دستِ طَلَب سے نکلا ہے


ہے ایک بار بھی آیا نہیں مجھے ملنے

دیار چھوڑ کے ظالم وہ جَب سے نکلا ہے


سیاہ رات سے گھبرانے والے دیکھ ذرا

یہ آفتاب جو نکلا ہے شَب سے نکلا ہے


پتہ بتا رہی ہیں تیری لرزشیں رَاحِلؔ

خمیر تیرا بھی آدم نَسَب سے نکلا ہے


شاعر علی رَاحِلؔ


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...