ہمارا نام وہ بھی ان کے لَب سے نکلا ہے
سنا ہے ہم نے بڑے ہی اَدَب سے نکلا ہے
ہر ایک آنکھ اسے تَک رہی ہے حسرت سے
کچھ ایسے حسنِ مجسّم وہ ڈَھب سے نکلا ہے
کوٸی مَلال نہیں گر بچھڑنے کا تجھ کو
یہ اشک آنکھ سے پھر کس سَبَب سے نکلا ہے
وہ معتبر ہوا دونوں جہان میں یکساں
مرے حضور کے جو لفظ لَب سے نکلا ہے
کبھی خدا سے تجھے مانگا ہی نہیں میں نے
کہاں وگرنہ تو دستِ طَلَب سے نکلا ہے
ہے ایک بار بھی آیا نہیں مجھے ملنے
دیار چھوڑ کے ظالم وہ جَب سے نکلا ہے
سیاہ رات سے گھبرانے والے دیکھ ذرا
یہ آفتاب جو نکلا ہے شَب سے نکلا ہے
پتہ بتا رہی ہیں تیری لرزشیں رَاحِلؔ
خمیر تیرا بھی آدم نَسَب سے نکلا ہے
شاعر علی رَاحِلؔ
No comments:
Post a Comment