یوم پیدائش 15 جون 1961
یہ عجب ساعت رخصت ہے کہ ڈر لگتا ہے
شہر کا شہر مجھے رخت سفر لگتا ہے
رات کو گھر سے نکلتے ہوئے ڈر لگتا ہے
چاند دیوار پے رکھا ہوا سر لگتا ہے
ہم کو دل نے نہیں حالات نے نزدیک کیا
دھوپ میں دور سے ہر شخص شجر لگتا ہے
جس پہ چلتے ہوئے سوچا تھا کہ لوٹ آؤں گا
اب وہ رستہ بھی مجھے شہر بدر لگتا ہے
مجھ سے تو دل بھی محبت میں نہیں خرچ ہوا
تم تو کہتے تھے کہ اس کام میں گھر لگتا ہے
وقت لفظوں سے بنائی ہوئی چادر جیسا
اوڑھ لیتا ہوں تو سب خواب ہنر لگتا ہے
اس زمانہ میں تو اتنا بھی غنیمت ہے میاں
کوئی باہر سے بھی درویش اگر لگتا ہے
اپنے شجرے کہ وہ تصدیق کرائے جا کر
جس کو زنجیر پہنتے ہوئے ڈر لگتا ہے
ایک مدت سے مری ماں نہیں سوئی تابشؔ
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
عباس تابش
No comments:
Post a Comment