یوم پیدائش 07 جولائی 1964
آسماں کی رفعتوں سے طرز یاری سیکھ لو
سر اٹھا کر چلنے والو خاکساری سیکھ لو
پیش خیمہ ہیں تنزل کا تکبر اور غرور
مرتبہ چاہو تو پہلے انکساری سیکھ لو
خود بدل جائے گا نفرت کی فضاؤں کا مزاج
پیار کی خوشبو لٹاؤ مشکباری سیکھ لو
چن لو قرطاس و قلم یا تیغ کر لو انتخاب
کوئی فن اپناؤ لیکن شاہکاری سیکھ لو
پھر تمہارے پاؤں چھونے خود بلندی آئے گی
سب دلوں پر راج کر کے تاج داری سیکھ لو
عشق کا میدان آساں تو نہیں ہے محترم
عشق کرنا ہی اگر ہے غم شعاری سیکھ لو
جس شجر کی چھاؤں ہو ماجدؔ زمانے کے لئے
کیسے ہوگی اس شجر کی آبیاری سیکھ لو
ماجد دیوبندی
No comments:
Post a Comment