یوم پیدائش 07 جولائی 1926
عمر جو بے خودی میں گزری ہے
بس وہی آگہی میں گزری ہے
کوئی موج نسیم سے پوچھے
کیسی آوارگی میں گزری ہے
ان کی بھی رہ سکی نہ دارآئی
جن کی اسکندری میں گزری ہے
آسرا ان کی رہبری ٹھہری
جن کی خود رہزنی میں گزری ہے
آس کے جگنوؤ سدا کس کی
زندگی روشنی میں گزری ہے
ہم نشینی پہ فخر کر ناداں
صحبت آدمی میں گزری ہے
یوں تو شاعر بہت سے گزرے ہیں
اپنی بھی شاعری میں گزری ہے
میر کے بعد غالب و اقبال
اک صدا، اک صدی میں گزری ہے
گلزار دہلوی
No comments:
Post a Comment