یوم پیدائش 01 جولائی 1887
دست خرد سے پردہ کشائی نہ ہو سکی
حسن ازل کی جلوہ نمائی نہ ہو سکی
رنگ بہار دے نہ سکے خارزار کو
دست جنوں میں آبلہ سائی نہ ہو سکی
اے دل تجھے اجازت فریاد ہے مگر
رسوائی ہے اگر شنوائی نہ ہو سکی
مندر بھی صاف ہم نے کئے مسجدیں بھی پاک
مشکل یہ ہے کہ دل کی صفائی نہ ہو سکی
فکر معاش و عشق بتاں یاد رفتگاں
ان مشکلوں سے عہد برآئی نہ ہو سکی
غافل نہ تجھ سے اے غم عقبیٰ تھے ہم مگر
دام غم جہاں سے رہائی نہ ہو سکی
منکر ہزار بار خدا سے ہوا بشر
اک بار بھی بشر سے خدائی نہ ہو سکی
خود زندگی برائی نہیں ہے تو اور کیا
محرومؔ جب کسی سے بھلائی نہ ہو سکی
تلوک چند محروم
No comments:
Post a Comment