مرا تو کوئی غم تازہ نہیں ہے
مجھے فرقت کا پچھتاوا نہیں ہے
کہیں پر ہم اذیّت پی گئے ہیں
کہیں پر ساغر و مینا نہیں ہے
مقفّل ہو چکی راہِ محبّت
اور اس کا قیس کو صدمہ نہیں ہے
ضرورت سے سوا رختِ سفر ہو
فقیری میں یہ کام اچھا نہیں ہے
کسی کی یاد میں بکھرا ہوا ہوں
کہ دھوکے سے یہ دل بیٹھا نہیں ہے
تماشا ختم ہونے جا رہا ہے
رضا کس آنکھ میں دریا نہیں ہے ؟
فیضان رضا
No comments:
Post a Comment