یوم پیدائش 01 جولائی 1970
کوئی بھی اب اسے تبدیل کر نہیں سکتا
بگڑ گیا ہے وہ اتنا سدھر نہیں سکتا
ہمارے زعم سے واقف ہے پانیوں کا مزاج
ہمارے سامنے دریا بپھر نہیں سکتا
ہمارا قتل بغاوت کو تقویت دے گا
ہمارا نظریہ مر کے بھی مر نہیں سکتا
مجھے تو چھو کے بتا ہوں کہ یا نہیں ہوں میں
میں اپنے ہونے کی تصدیق کر نہیں سکتا
اس آئینے کا بدن کرچیوں میں دفنا دو
تمہیں جو دیکھ کے خود ہی نکھر نہیں سکتا
جنوں کو میں نے دکھاٸی ہے اعتدال کی راہ
سو چاہ کے بھی وہ حد سے گزر نہیں سکتا
مثال دی تری اس کو وہ جس کا دعوی تھا
یہ ماہتاب زمیں پر اتر نہیں سکتا
بس ایک عشق ہی صحرا میں ڈھوتا رہتا ہوں
میں کوٸی اور مشقت تو کر نہیں سکتا
ترے گلے میں جو کشکول حرص و لالچ ہے
زمیں کے چاند ستاروں سے بھر نہیں سکتا
عمران انجم
No comments:
Post a Comment