Urdu Deccan

Tuesday, July 6, 2021

عمران انجم

 یوم پیدائش 01 جولائی 1970


کوئی بھی اب اسے تبدیل کر نہیں سکتا

بگڑ گیا ہے وہ اتنا سدھر نہیں سکتا


ہمارے زعم سے واقف ہے پانیوں کا مزاج

ہمارے سامنے دریا بپھر نہیں سکتا


ہمارا قتل بغاوت کو تقویت دے گا

ہمارا نظریہ مر کے بھی مر نہیں سکتا


مجھے تو چھو کے بتا ہوں کہ یا نہیں ہوں میں

میں اپنے ہونے کی تصدیق کر نہیں سکتا


 اس آئینے کا بدن کرچیوں میں دفنا دو

تمہیں جو دیکھ کے خود ہی نکھر نہیں سکتا


جنوں کو میں نے دکھاٸی ہے اعتدال کی راہ

سو چاہ کے بھی وہ حد سے گزر نہیں سکتا


مثال دی تری اس کو وہ جس کا دعوی تھا

یہ ماہتاب زمیں پر اتر نہیں سکتا


بس ایک عشق ہی صحرا میں ڈھوتا رہتا ہوں

میں کوٸی اور مشقت تو کر نہیں سکتا


ترے گلے میں جو کشکول حرص و لالچ ہے

زمیں کے چاند ستاروں سے بھر نہیں سکتا


عمران انجم


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...