یوم پیدائش 01 جولائی 1965
آج کا دور بھی افسوس اسی ہیجان میں ہے
قیصریّت کی ادا کیوں ابھی سلطان میں ہے
میں عقیدت کو نہ بدلوں گا تمھارے ڈر سے
پختگی ظالمو! اب بھی مرے ایمان میں ہے
آج خورشیدِ مصائب ہے سوا نیزے پر
اب تو ہر شخص یہاں حشر کے میدان میں ہے
کیسے انصاف ہو قانون میں ٹھہراؤ نہیں
ایک ہلچل سی ابھی عدل کی میزان میں ہے
خوشنما پھول کی مانند حبیبِ ناداں
نقشِ پا آج بھی دیکھ آؤ بیابان میں ہے
حبیب بنارسی
No comments:
Post a Comment