یوم پیدائش 30 جولائی 1823
سہے غم پئے رفتگاں کیسے کیسے
مرے کھو گئے کارواں کیسے کیسے
وہ چتون وہ ابرو وہ قد یاد سب ہے
سناؤں میں گزرے بیاں کیسے کیسے
مرے داغ سوزاں کا مضموں نہ سوچو
جلے کہہ کے آتش زباں کیسے کیسے
رہا عشق سے نام مجنوں کا ورنہ
تہ خاک ہیں بے نشاں کیسے کیسے
شب وصل میں مہ کو عریاں کریں گے
عیاں ہوں گے راز نہاں کیسے کیسے
کمر یار کی ناتوانی میں ڈھونڈی
توہم ہوئے درمیاں کیسے کیسے
کلیجے میں اخترؔ پھپھولے پڑے ہیں
مرے اٹھ گئے قدرداں کیسے کیسے
واجد علی شاہ اختر
No comments:
Post a Comment