یوم پیدائش 30 جولائی 1906
ساقی کی نوازش نے تو اور آگ لگا دی
دنیا یہ سمجھتی ہے مری پیاس بجھا دی
ایک بار تجھے عقل نے چاہا تھا بھلانا
سو بار جنوں نے تری تصویر دکھا دی
اس بات کو کہتے ہوئے ڈرتے ہیں سفینے
طوفاں کو خودی دامن ساحل نے ہوا دی
مانا کہ میں پامال ہوا زخم بھی کھائے
اوروں کے لیے راہ تو آسان بنا دی
اتنی تو مئے ناب میں گرمی نہیں ہوتی
ساقی نے کوئی چیز نگاہوں سے ملا دی
وہ چین سے بیٹھے ہیں مرے دل کو مٹا کر
یہ بھی نہیں احساس کہ کیا چیز مٹا دی
اے باد چمن تجھ کو نہ آنا تھا قفس میں
تو نے تو مری قید کی میعاد بڑھا دی
لے دے کے ترے دامن امید میں ماہرؔ
ایک چیز جوانی تھی جوانی بھی لٹا دی
ماہر القادری
No comments:
Post a Comment