Urdu Deccan

Friday, July 16, 2021

شوزیب کاشر

 سفر پسند کبھی تھا نہ ہوں کہ چلتا رہوں

وہ بے گھری ہے مگر جوں کی توں کہ چلتا رہوں


تمہارے ساتھ سے مطلب ہے منزلوں سے نہیں

قدم قدم پہ ہے ایسا سکوں کہ چلتا رہوں


نہ رنجِ آبلہ پائی نہ خوفِ دربدری

الگ ہی دُھن ہے کوئی ان دنوں کہ چلتا رہوں


کہیں پہنچنا بھی ہے اور چلنا بھی مشکل 

عجیب مخمصے میں ہوں رکوں کہ چلتا رہوں


یہ گمرہی تو کبھی ختم ہونے والی نہیں 

سو زہزنوں سے بھی ملتا چلوں کہ چلتا رہوں


پتے کی بات کھڑے پانیوں سے سیکھی ہے

طرف کوئی بھی ہو بہتا رہوں کہ چلتا رہوں


نہ رہبروں سے شکایت نہ رہزنوں سے گلہ

مری تو اپنی بھی چاہت تھی یوں کہ چلتا رہوں


نہ سنگِ میل ، نہ نقشِ قدم ، نہ قطب نما

نہ ضو فگن ہے فلک نیلگوں کہ چلتا رہوں


کٹھن ضرور ہے مانا یہ زندگی کا سفر

شکستہ پا ہوں پر اتنا تو ہوں کہ چلتا رہوں


تلاشِ ذات بھی کاشر عجب مصیبت ہے

تھکن سے چور ہوں لیکن جنوں کہ چلتا رہوں


شوزیب کاشر


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...