ایک نے منزل سمجھی اپنی، ایک نے رستہ سمجھا تھا
دونوں نے ہی اک دوجے کو، اپنے جیسا سمجھا تھا
عشق نے تیری عقل پہ کتنے گہرے پردے ڈال دیے
اے دل میرے میں نے تجھ کو اچھا خاصہ سمجھا تھا
وہ تھا دنیا داری والا، عشق وفا سے اُس کو کیا
تیری غلطی تُو نے اُس کو بات کا پکا سمجھا تھا
میں نے پورے سچّے دل سے، اُس کے ہاتھ پہ بَیعَت کی
روح کی ہر اک رگ سے اُس کو، عشق صحیفہ سمجھا تھا
گرد میں لپٹی اک مٹیالے سائے کی وہ صورت تھی
لیکن میں نے سات ستاروں والا جُھمکا سمجھا تھا
کتنی گہری چُپ تھی لیکن، دیکھ کے اس کو بول پڑی
یہ ہے دل کا اندھا جس کو، میں نے زندہ سمجھا تھا
تیرا پتھر کا ہو جانا اب تو واجب ہے ناہید
پتھر ہی کو تُو نے اپنا، دین اور دنیا سمجھا تھا
ناہید وِرک
No comments:
Post a Comment