یوم پیدائش 07 جولائی 1929
پل رہے ہیں کتنے اندیشے دلوں کے درمیاں
رات کی پرچھائیاں جیسے دیوں کے درمیاں
پھر کسی نے ایک خوں آلود خنجر رکھ دیا
خوف کے ظلمت کدے میں دوستوں کے درمیاں
کیا سنہری دور تھا ہم زرد پتوں کی طرح
در بہ در پھرتے رہے پیلی رتوں کے درمیاں
اے خدا انسان کی تقسیم در تقسیم دیکھ
پارساؤں دیوتاؤں قاتلوں کے درمیاں
آشتی کے نام پر اتنی صف آرائی ہوئی
آ گئی بارود کی خوش بو گلوں کے درمیاں
میرا چہرہ خود بھی آشوب سفر میں کھو گیا
میں یہ کس کو ڈھونڈتا ہوں منزلوں کے درمیاں
حسن عابدی
No comments:
Post a Comment