یوم پیدائش 03 اگست 1916
بے خودی میں کیا بتائیں ہم کہ ہم نے کیا کیا
جس طرف جلوہ تیرا آیا نظر سجدہ کیا
کر کے نالہ ہجر طیبہ میں مجھے رُسوا کیا
اضطرابِ دردِ دل یہ ہائے تو نے کیا کِیا
جلوہء در پردہ دیکھا ہو گئے بے خود کلیم
عرش پر دیدارِ حق آقا نے بے پردہ کیا
بت گرے بتخانے ٹوٹے کلمہ توحید سے
حشر تم نے کائناتِ کفر میں برپا کیا
خلوتِ عرش بریں سے تم نے آ کر دہر میں
دین کی تبلیغ کی اسلام کا چرچا کیا
چشمے پتھر سے اُبلنا عین فطرت ہے کلیم
دستِ رحمت سے رواں سرکار نے دریا کیا
دیکھ کر ہم عاصیوں پر لطف و رحمت کی نظر
بخششِ اُمت کا حق نے آپ سے وعدہ کیا
آج بھی ہے اے خوشا قسمت امید مغفرت
محو دل سے تیری رحمت نے غمِ فردا کیا
جلوہء روئے نبی نے دل میں آ کر اے شکیلؔ
عرش کے انوار سے روشن میرا سینہ کیا
شکیل بدایونی
No comments:
Post a Comment