یوم پیدائش 03 اگست 1928
کاش اک شب کے لیے خود کو میسر ہو جائیں
فرش شبنم سے اٹھیں اور گل تر ہو جائیں
دیکھنے والی اگر آنکھ کو پہچان سکیں
رنگ خود پردۂ تصویر سے باہر ہو جائیں
تشنگی جسم کے صحرا میں رواں رہتی ہے
خود میں یہ موج سمو لیں تو سمندر ہو جائیں
وہ بھی دن آئیں یہ بے کار گزرتے شب و روز
تیری آنکھیں ترے بازو ترا پیکر ہو جائیں
اپنی پلکوں سے جنہیں نوچ کے پھینکا ہے ابھی
کیا کرو گے جو یہی خواب مقدر ہو جائیں
جو بھی نرمی ہے خیالوں میں نہ ہونے سے ہے
خواب آنکھوں سے نکل جائیں تو پتھر ہو جائیں
توصیف تبسم
No comments:
Post a Comment