یوم پیدائش 03 اگست 1933
حد ستم نہ کر کہ زمانہ خراب ہے
ظالم خدا سے ڈر کہ زمانہ خراب ہے
اتنا نہ بن سنور کہ زمانہ خراب ہے
میلی نظر سے ڈر کہ زمانہ خراب ہے
بہنا پڑے گا وقت کے دھارے کے ساتھ ساتھ
بن اس کا ہم سفر کہ زمانہ خراب ہے
پھسلن قدم قدم پہ ہے بازار شوق میں
چل دیکھ بھال کر کہ زمانہ خراب ہے
کچھ ان پہ غور کر جو تقاضے ہیں وقت کے
ان سے نباہ کر کہ زمانہ خراب ہے
آ غرق جام کر دیں ملے ہیں جو رنج و غم
پیمانہ میرا بھر کہ زمانہ خراب ہے
گر بے ٹھکانہ ہیں تو نہیں شرمسار ہم
اب کیا بنائیں گھر کہ زمانہ خراب ہے
محنت شعور تجربہ تعلیم و تربیت
سب کچھ ہے بے اثر کہ زمانہ خراب ہے
دو روٹیاں نہیں نہ سہی ایک ہی سہی
اس پر ہی صبر کر کہ زمانہ خراب ہے
شباب للت
No comments:
Post a Comment