مِری آنکھوں میں کبھی جھانک کے دیکھا نہ کرو
باتوں باتوں میں مجھے ایسے کُریدا نہ کرو
مانا، جذبوں کی تمہیں قدر نہیں ہے پھر بھی
پُھول جیسے مِرے جذبات ہیں، کُچلا نہ کرو
مجھ سے نفرت کرو تقسیم جو کرنا ہو مجھے
مجھ کو میزانِِ محبت سے تو مِنہا نہ کرو
تم کو چاہت نہیں منظور جو میری، نہ سہی
میرے پِندارِ محبت کو تو رُسوا نہ کرو
دل میں جو بات ہے لے آؤ زباں پر اپنی
روز مجھکو نئے انداز سے پرکھا نہ کرو
چاہتے ہو یہ اگر تم کو زمانہ چاہے
خود میں رہتے ہوئے خود کو کبھی تنہا نہ کرو
نہ ملو مجھ سے مگر اپنی اَ نا کی خاطر
مِری چاہت مِرے اِخلاص کا سودا نہ کرو
پُھول کِھلتے ہی مزاروں کیلئے ہیں عارف
لے کے ہاتھوں میں اِنہیں اِس طرح مَسلا نہ کرو
محمد عارف
No comments:
Post a Comment