یومِ پیدائش 06 اگست
چاہت میں ہاے! زخمِ جگر کون دے گیا
الفت سے بے خبر، کو خبر کون دے گیا
کٹتے تھے صبح و شام جو خوشیوں میں ہرگھڑی
غم سے بھری یہ شام و سحر کون دے گیا
لیلیٰ و قیس ، ہیر کا رستہ ہے یہ میاں
لٹ جاتے ہیں جہاں وہ ڈگر کون دے گیا
بنتے تھے تاج و قصر محبّت میں کوہ کن
"پتھر تراشنے کا ہنر کون دے گیا "
سب نے دئیں تھے پھول لحد پر مری مگر
کانٹوں بھری یہ شاخِ شجر کون دے گیا
اٹھتے ہی ہاتھ دامنِ امید بھر گئی
بےجان سی دعا میں اثر کون دے گیا
سن کر مری غزل وہ یہ حیرت سے کہہ اٹھا
شعر و سخن کا تم کو ہنر کون دے گیا
احسان داوؔر شیرگھاٹوی
No comments:
Post a Comment