یوم پیدائش 04 اگست 1944
ہونٹوں کے صحیفوں پہ ہے آواز کا چہرہ
سایہ سا نظر آتا ہے ہر ساز کا چہرہ
آنکھوں کی گپھاؤں میں تڑپتی ہے خموشی
خوابوں کی دھنک ہے مرے ہم راز کا چہرہ
میں وقت کے کہرام میں کھو جاؤں تو کیا غم
ڈھونڈے گا زمانہ مری آواز کا چہرہ
سورج کے بدن سے نکل آئے ہیں ستارے
انجام میں بیدار ہے آغاز کا چہرہ
پلکیں ہیں کہ سرگوشی میں خوشبو کا سفر ہے
آنکھوں کی خموشی ہے کہ آواز کا چہرہ
یوسف اعظمی
No comments:
Post a Comment