یوم پیدائش 02 آگسٹ 1950
ہجوم غم میں بہر حال مسکرانا ہے
ہوا کے رخ پہ چراغ یقیں جلانا ہے
ہے دل خراش بہت یاد میرے ماضی کی
اسے حریم غزل میں مجھے سجانا ہے
گنہ کے خوف سے انسان کانپ جاتا تھا
یہ واقعہ تو ہے لیکن بہت پرانا ہے
تمام شہر پہ حاکم کا جبر ہے غالب
یہ کیا کہ ناز بھی اس کا ہمیں اٹھانا ہے
جدید دور میں اصحاب کہف کے مانند
قدیم دور کا سکہ ہمیں چلانا ہے
جنہیں ہے زعم بہت اپنی بے گناہی پر
انہیں بھی چل کے ذرا آئینہ دکھانا ہے
چراغ عزم کا تم ساتھ لے چلو ساحلؔ
ہوا کے زور مسلسل کو آزمانا ہے
محمد شرف الدین ساحل
No comments:
Post a Comment