یوم پیدائش 10 اگست
دیارِ عشق میں محشر بپا تھا
کسی کی آنکھ سے آنسو گِرا تھا
لگی تھی آگ سارے پانیوں میں
کلی نے قطرہء شبنم چُھوا تھا
نہیں ایسا کسی کی شاعری میں
جو میں نے آنکھ میں اُس کی پڑھا تھا
گِرا طوفاں کے آگے بے بسی سے
ضرورت سے شجر اونچا ہُوا تھا
کہاں اب لوٹ کے آئے گا وہ دن
کسی نے جب مجھے اپنا کہا تھا
قدم رنجا ہوئے صحرا میں جب وہ
گلستاں جا کے صحرا میں بسا تھا
میں زنداں میں مقیّد تھا ولیکن
خیالِ یار کا روزن کُھلا تھا
جہاں پر لوگ مَنّت مانگتے تھے
وہ میرے دلبراں کا نقشِ پا تھا
میسّر تھا نہیں پانی کہیں پر
کہ دریا آنکھ میں اُترا ہوا تھا
اشتیاق احمد یاد
No comments:
Post a Comment