یوم پیدائش 10 اگست 1957
رہیے احباب سے کٹ کر کہ وبا کے دن ہیں
سانس بھی لیجیے ہٹ کر کہ وبا کے دن ہیں
وہ جنہیں خود سے بھی ملنے کی نہیں تھی فرصت
رہ گئے خود میں سمٹ کر کہ وبا کے دن ہیں
رونق بزم جہاں خود کو سمجھنے والے
آ گئے گھر کو پلٹ کر کہ وبا کے دن ہیں
کیا کسی اور سے اب حرف تسلی کہیے
روئیے خود سے لپٹ کر کہ وبا کے دن ہیں
ایک جھٹکے میں ہوئے شاہ و گدا زیر و زبر
رہ گئی دنیا الٹ کر کہ وبا کے دن ہیں
سب کو معلوم ہے تعبیر تو یکساں ہوگی
خواب ہی دیکھ لیں ہٹ کر کہ وبا کے دن ہیں
ایک کمرے میں سمٹ آئی ہے ساری دنیا
رہ گئے خانوں میں بٹ کر کہ وبا کے دن ہیں
یہ مرا رنگ تغزل تو نہیں ہے لیکن
اک غزل لکھی ہے ہٹ کر کہ وبا کے دن ہیں
عقیل عباس جعفری
No comments:
Post a Comment