Urdu Deccan

Sunday, September 19, 2021

ندیم اعجاز

 عقل بیمار دل دوانہ ہے

بحث کا سلسلہ پرانا ہے


اک سلگتی ہوئی حقیقت ہے

زندگی کب کوئی فسانہ ہے


جو ہواوں کی زد پہ ہے ہر دم

ایسی ٹہنی پہ آشیانہ ہے


چاندنی گو بدن جلاتی ہے

چاند سے پھر بھی عاشقانہ ہے


تُو فلک سے اتر کے آ تو کبھی

دل تجھے کھول کر دکھانا ہے


جب ملے ڈولتے ہیں دونوں جہاں

چشمِ جاں اک شراب خانہ ہے


خود سے روٹھے ہیں خود ہی مانیں گے

کس نے آ کر ہمیں منانا ہے


کون دے گا مری گواہی ندیم

اس کی جانب تو اک زمانہ ہے


ندیم اعجاز


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...