عقل بیمار دل دوانہ ہے
بحث کا سلسلہ پرانا ہے
اک سلگتی ہوئی حقیقت ہے
زندگی کب کوئی فسانہ ہے
جو ہواوں کی زد پہ ہے ہر دم
ایسی ٹہنی پہ آشیانہ ہے
چاندنی گو بدن جلاتی ہے
چاند سے پھر بھی عاشقانہ ہے
تُو فلک سے اتر کے آ تو کبھی
دل تجھے کھول کر دکھانا ہے
جب ملے ڈولتے ہیں دونوں جہاں
چشمِ جاں اک شراب خانہ ہے
خود سے روٹھے ہیں خود ہی مانیں گے
کس نے آ کر ہمیں منانا ہے
کون دے گا مری گواہی ندیم
اس کی جانب تو اک زمانہ ہے
ندیم اعجاز
No comments:
Post a Comment