یوم پیدائش 01 سپتمبر 1936
زخم کو پھول کہیں نوحے کو نغمہ سمجھیں
اتنے سادہ بھی نہیں ہم کہ نہ اتنا سمجھیں
زخم کا اپنے مداوا کسے منظور نہیں
ہاں مگر کیوں کسی قاتل کو مسیحا سمجھیں
شعبدہ بازی کسی کی نہ چلے گی ہم پر
طنز و دشنام کو کہتے ہو لطیفہ سمجھیں
خود پہ یہ ظلم گوارا نہیں ہوگا ہم سے
ہم تو شعلوں سے نہ گزریں گے نہ سیتا سمجھیں
چھوڑیئے پیروں میں کیا لکڑیاں باندھے پھرنا
اپنے قد سے مرا قد، شوق سے چھوٹا سمجھیں
کوئی اچھا ہے تو اچھا ہی کہیں گے ہم بھی
لوگ بھی کیا ہیں ذرا دیکھیے کیا کیا سمجھیں
ہم تو بیگانے سے خود کو بھی ملے ہیں بلقیسؔ
کس توقع پہ کسی شخص کو اپنا سمجھیں
بلقیس ظفیر الحسن
No comments:
Post a Comment