ہاتھ خالی تھے سو ہم کو کاسے ملے
بعد مرنے کے کتنے دلاسے ملے
ہم نے آنسو جنے تیسری جنس کے
جب بھی ارزاں ہوئے تو خدا سے ملے
سانحوں سے مرتب کتب کھو گئیں
فن ہوا ہو گیا , گم خلاصے ملے
از قدم تا قدم بھاگتے پھر رہے
ٹوٹ کر گر گئے تب دعا سے ملے
بھول جانا ہنر ہے, نہیں آ سکا
عشق میں کچھ دفینے خطا سے ملے
سعدیہ بشیر
No comments:
Post a Comment