Urdu Deccan

Sunday, September 19, 2021

رند لکھنوی

 یوم پیدائش 03 سپتمبر 1797


آفت شب تنہائی کی ٹل جائے تو اچھا

گھبرا کے جو دم آج نکل جائے تو اچھا


او جان حزیں جانا ہے اک دن تجھے آخر

اب جائے تو بہتر ہے کہ کل جائے تو اچھا


جھکوا دیا سر ضعف نے قاتل کے قدم پر

تلوار اگر اس کی اگل جائے تو اچھا


بہتر نہیں ہے صورت جاناں کا تصور

دل اور کسی شے سے بہل جائے تو اچھا


اک سل ہے کلیجے پہ نہیں روح بدن میں

چھاتی کا پہاڑ آہ پہ ٹل جائے تو اچھا


دیوانہ عبث شہر کی گلیوں میں ہے برباد

مجنوں کسی جنگل کو نکل جائے تو اچھا


او آتش دل پھونک دے تن اشک بہا دے

بہہ جائے تو بہتر ہے یہ جل جائے تو اچھا


ہر مرتبہ ڈسنے کے ارادہ میں ہے وہ زلف

اژدر یہ اگر مجھ کو نگل جائے تو اچھا


پھر رکنا ہے دشوار یہ جب آئی تو آئی

ایسے میں طبیعت جو سنبھل جائے تو اچھا


تابوت مرا تھم کے اٹھاؤ مرے یارو

وہ بھی کف افسوس جو مل جائے تو اچھا


اے رندؔ ملو یار سے یا ہاتھ اٹھاؤ

جھگڑا چکے ہر شب کا خلل جائے تو اچھا 


رند لکھنوی


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...