یوم پیدائش 03 سپتمبر 1928
تم خود ہی محبت کی ہر اک بات بھلا دو
پھر خود ہی مجھے ترک محبت کی سزا دو
ہمت ہے تو پھر سارا سمندر ہے تمہارا
ساحل پہ پہنچ جاؤ تو کشتی کو جلا دو
اقرار محبت ہے نہ انکار محبت
تم چاہتے کیا ہو ہمیں اتنا تو بتا دو
کھل جائے نہ آنکھوں سے کہیں راز محبت
اچھا ہے کہ تم خود مجھے محفل سے اٹھا دو
سچائی تو خود چہرے پہ ہو جاتی ہے تحریر
دعوے جو کریں لوگ تو آئینہ دکھا دو
انسان کو انسان سے تکلیف ہے اخگرؔ
انسان کو تجدید محبت کی دعا دو
حنیف اخگر
No comments:
Post a Comment