یوم پیدائش 12 اگست 1935
اندھیرا اتنا نہیں ہے کہ کچھ دکھائی نہ دے
سکوت ایسا نہیں ہے جو کچھ سنائی نہ دے
جو سننا چاہو تو بول اٹھیں گے اندھیرے بھی
نہ سننا چاہو تو دل کی صدا سنائی نہ دے
جو دیکھنا ہو تو آئینہ خانہ ہے یہ سکوت
ہو آنکھ بند تو اک نقش بھی دکھائی نہ دے
یہ روحیں اس لیے چہروں سے خود کو ڈھانپے ہیں
ملے ضمیر تو الزام بے وفائی نہ دے
کچھ ایسے لوگ بھی تنہا ہجوم میں ہیں چھپے
کہ زندگی انہیں پہچان کر دہائی نہ دے
ہوں اپنے آپ سے بھی اجنبی زمانے کے ساتھ
اب اتنی سخت سزا دل کی آشنائی نہ دے
سبھی کے ذہن ہیں مقروض کیا قدیم و جدید
خود اپنا نقد دل و جاں کہیں دکھائی نہ دے
بہت ہے فرصت دیوانگی کی حسرت بھی
وحیدؔ وقت گر اذن غزل سرائی نہ دے
وحید اختر
No comments:
Post a Comment