یوم پیدائش 12اگست 1915
میں دشت زندگی کو چلا تھا نکھارنے
اک قہقہہ لگایا گزرتی بہار نے
گزرا ہوں جب سلگتے ہوئے نقش چھوڑتا
دیکھا ہے مجھ کو غور سے ہر رہ گزار نے
میکش نے جام زہر ہی منہ سے لگا لیا
پاگل بنا دیا جو نشے کے اتار نے
انسان حد نور سے آگے نکل گیا
چھوڑا مگر نہ اس کو لہو کی پکار نے
ان مہ رخوں کی ہم سے جو یہ بے رخی رہی
جانا پڑے گا چاند پہ کچھ دن گزارنے
کرتے ہیں وہ ستارے بھی اب مجھ پہ چشمکیں
چمکا دیا جنہیں مری شب ہائے تار نے
ان گل کدوں کو بھی کوئی اے کاش دیکھتا
جھلسا ہے جن کو آتش فصل بہار نے
لاؤں کہاں سے ان کے لیے اور غم گسار
جو غم دئے ہیں مجھ کو مرے غم گسار نے
میری سرشت میں تھی محبت کی پرورش
مجھ کو قلم دیا مرے پروردگار نے
بخشا ہے اپنے حسن کا پرتو مجھے کرمؔ
فطرت کے ہر جمیل و حسیں شاہکار نے
کرم حیدری
No comments:
Post a Comment