یوم پیدائش 12اگست 1928
رستے میں لٹ گیا ہے تو کیا قافلہ تو ہے
یارو نئے سفر کا ابھی حوصلہ تو ہے
واماندگی سے اٹھ نہیں سکتا تو کیا ہوا
منزل سے آشنا نہ سہی نقش پا تو ہے
ہاتھوں میں ہاتھ لے کے یہاں سے گزر چلیں
قدموں میں پل صراط سہی راستا تو ہے
مانگے کی روشنی تو کوئی روشنی نہیں
اس دور مستعار میں اپنا دیا تو ہے
یہ کیا ضرور ہے میں کہوں اور تو سنے
جو میرا حال ہے وہ تجھے بھی پتا تو ہے
اپنی شکایتیں نہ سہی تیرا غم سہی
اظہار داستاں کا کوئی سلسلہ تو ہے
ہم سے کوئی تعلق خاطر تو ہے اسے
وہ یار با وفا نہ سہی بے وفا تو ہے
وہ آئے یا نہ آئے ملاقات ہو نہ ہو
رنگ سحر کے پاس خرام صبا تو ہے
پاؤں کی چاپ سے مری دھڑکن ہے ہم نوا
اس دشت ہول میں کوئی نغمہ سرا تو ہے
سورج ہمارے گھر نہیں آیا تو کیا ہوا
دو چار آنگنوں میں اجالا ہوا تو ہے
کانٹا نکل بھی جائے گا جب وقت آئے گا
کانٹے کے دل میں بھی کوئی کانٹا چبھا تو ہے
میں ریزہ ریزہ اڑتا پھروں گا ہوا کے ساتھ
صدیوں میں جھانک کر بھی مجھے دیکھنا تو ہے
آشوب آگہی کی شب بے کنار میں
تیرے لیے جمیلؔ کوئی سوچتا تو ہے
جمیل ملک
No comments:
Post a Comment