شہرِ سنگدل ہے یا قاتلوں کی بستی ہے
زندگی گراں قیمت اور موت سستی ہے
جبر ہے تشدد ہے اور چیرہ دستی ہے
پھر ترے نشانے پر میری فاقہ مستی ہے
ختم ہی نہیں ہوتا انتظار کا موسم
موت سے گلے ملنے زندگی ترستی ہے
کیا بتاؤں میں تم کو کیا گزرتی ہے دل پر
ہجر کی تمازت سے روح جب جھلستی ہے
وہ تو چاہتیں اپنی غیروں پر لٹاتے ہیں
ان کے پیار کی بارش ہم پہ کب برستی ہے
جذبہءِ جواں مردی مجھ میں کم نہیں لیکن
فکر ناگہانی اب حوصلوں کو ڈستی ہے
سرفراز ہوتی ہے جس کے قدموں میں جنت
ماں جہانِ گلشن کی وہ عظیم ہستی ہے
شاؔد اپنے قامت پر ہم غرور کیا کرتے
عرش کی بلندی جب خود رہین پستی ہے
شمشاد شاد
No comments:
Post a Comment