یوم پیدائش 15 اگست 1932
ہجر اک حسن ہے اس حسن میں رہنا اچھا
چشم بے خواب کو خوں ناب کا گہنا اچھا
کوئی تشبیہ کا خورشید نہ تلمیح کا چاند
سر قرطاس لگا حرف برہنہ اچھا
پار اترنے میں بھی اک صورت غرقابی ہے
کشتئ خواب رہ موج پہ بہنا اچھا
یوں نشیمن نہیں ہر روز اٹھائے جاتے
اسی گلشن میں اسی ڈال پہ رہنا اچھا
بے دلی شرط وفا ٹھہری ہے معیار تو دیکھ
میں برا اور مرا رنج نہ سہنا اچھا
دھوپ اس حسن کی یک لحظہ میسر تو ہوئی
پھر نہ تا عمر لگا سائے میں رہنا اچھا
دل جہاں بات کرے دل ہی جہاں بات سنے
کار دشوار ہے اس طرز میں کہنا اچھا
اختر حسین جعفری
No comments:
Post a Comment