یوم پیدائش 01 نومبر 1936
طلسم ذات سے باہر نکلیے
نظر کے گھات سے باہر نکلیے
اجالے جانے کب سے منتظر ہیں
اندھیری رات سے باہر نکلیے
تصور سے فقط ہوتا نہیں کچھ
ہوائی بات سے باہر نکلیے
ہیں انساں کے لئے یہ سم قاتل
بری عادات سے باہر نکلیے
ندی نالے سبھی امڈے ہوئے ہیں
بھری برسات سے باہر نکلیے
کہیں گم ہو نہ جائیں آپ اس میں
ہجوم ذات سے باہر نکلیے
عذاب جاں ہے ناکردہ گناہی
ان الزامات سے باہر نکلیے
اصول زندگی بدلا ہوا ہے
حسیں لمحات سے باہر نکلیے
بدل جائیں گے روز و شب بھی صدیقؔ
حصار ذات سے باہر نکلیے
صدیق فتح پوری
No comments:
Post a Comment