یوم پیدائش 10 نومبر 1977
ایک رستے کی کہانی جو سنی پانی سے
ہم بھی اس بار نہیں بھاگے پریشانی سے
میری بے جان سی آنکھوں سے ڈھلکتے آنسو
آئینہ دیکھ رہا ہے بڑی حیرانی سے
میرے اندر تھے ہزاروں ہی اکیلے مجھ سے
میں نے اک بھیڑ نکالی اسی ویرانی سے
مات کھائے ہوئے تم بیٹھے ہو دانائی سے
جیت ہم لے کے چلے آئے ہیں نادانی سے
ورنہ مٹی کے گھڑے جیسے بدن ہیں سارے
معرکے سر ہوئے سب جرأت ایمانی سے
آئینہ چپکے سے منظر وہ چرا لیتا ہے
تو سجاتا ہے بدن جب کبھی عریانی سے
سرفراز نواز
No comments:
Post a Comment