یوم پیدائش 23 دسمبر 1933
آدمی چونک چکا ہے مگر اٹھا تو نہیں
میں جسے ڈھونڈ رہا ہوں یہ وہ دنیا تو نہیں
روح کو درد ملا درد کو آنکھیں نہ ملیں
تجھ کو محسوس کیا ہے تجھے دیکھا تو نہیں
رنگ سی شکل ملی ہے تجھے خوشبو سا مزاج
لالہ و گل کہیں تیرا ہی سراپا تو نہیں
چہرہ دیکھوں تو خد و خال بدل جاتے ہی
چھپ کے آئینے کے پیچھے کوئی بیٹھا تو نہیں
پھینک کر مار زمیں پر نہ زمانے مجھ کو
ٹوٹ ہی جاؤں گا جیسے میں کھلونا تو نہیں
زندگی تجھ سے ہر اک سانس پہ سمجھوتا کروں
شوق جینے کا ہے مجھ کو مگر اتنا تو نہیں
میری آنکھوں میں ترے نقش قدم کیسے ہیں
اس سرائے میں مسافر کوئی ٹھہرا تو نہیں
سوچتے سوچتے دل ڈوبنے لگتا ہے مرا
ذہن کی تہ میں مظفرؔ کوئی دریا تو نہیں
مظفر وارثی
No comments:
Post a Comment