Urdu Deccan

Thursday, December 30, 2021

حمیدہ معین رضوی

 یوم پیدائش 23 دسمبر 1943


منزل پہ پہنچنے کو تاروں پہ نظر رکھتے

جب شہر بسایا تھا رستوں کی خبر رکھتے


کہتے ہو اندھیرا ہے کوئی نہیں چہرہ ہے

ایمان یقیں ہوتا آنکھوں میں سحر رکھتے


الزام تراشی سے اب کچھ بھی نہیں حاصل

جب آئے غنیم اندر لڑنے کا ہنر رکھتے


اس قحط رجالاں میں قائد بھی نہیں ملتے

جو قافلۂ دل کو مائل بہ سفر رکھتے


ہم خاک کے ذروں کی صورت میں پریشاں ہیں

طاقت کو جمع کرتے تو برق و شرر رکھتے


ہم سب سگ مایہ ہیں ہڈی پہ جھپٹتے ہیں

ایسے میں کسی پر کیا اب خاک اثر رکھتے


صحرا کی تپش ہر سو کرگس کا بسیرا ہے

ہر شے جو جلا دی ہے کچھ باقی شجر رکھتے


اک مرگ مسلسل ہے افکار ہیں یخ بستہ

صحرا کی حرارت کو شعلوں سا جگر رکھتے


حمیدہ معین رضوی


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...