یوم پیدائش 23 دسمبر 1943
منزل پہ پہنچنے کو تاروں پہ نظر رکھتے
جب شہر بسایا تھا رستوں کی خبر رکھتے
کہتے ہو اندھیرا ہے کوئی نہیں چہرہ ہے
ایمان یقیں ہوتا آنکھوں میں سحر رکھتے
الزام تراشی سے اب کچھ بھی نہیں حاصل
جب آئے غنیم اندر لڑنے کا ہنر رکھتے
اس قحط رجالاں میں قائد بھی نہیں ملتے
جو قافلۂ دل کو مائل بہ سفر رکھتے
ہم خاک کے ذروں کی صورت میں پریشاں ہیں
طاقت کو جمع کرتے تو برق و شرر رکھتے
ہم سب سگ مایہ ہیں ہڈی پہ جھپٹتے ہیں
ایسے میں کسی پر کیا اب خاک اثر رکھتے
صحرا کی تپش ہر سو کرگس کا بسیرا ہے
ہر شے جو جلا دی ہے کچھ باقی شجر رکھتے
اک مرگ مسلسل ہے افکار ہیں یخ بستہ
صحرا کی حرارت کو شعلوں سا جگر رکھتے
حمیدہ معین رضوی
No comments:
Post a Comment