یوم پیدائش 25 دسمبر 1956
اپنی آگ کو زندہ رکھنا کتنا مشکل ہے
پتھر بیچ آئینہ رکھنا کتنا مشکل ہے
کتنا آساں ہے تصویر بنانا اوروں کی
خود کو پس آئینہ رکھنا کتنا مشکل ہے
آنگن سے دہلیز تلک جب رشتہ صدیوں کا
جوگی تجھ کو ٹھہرا رکھنا کتنا مشکل ہے
دوپہروں کے زرد کواڑوں کی زنجیر سے پوچھ
یادوں کو آوارہ رکھنا کتنا مشکل ہے
چلو میں ہو درد کا دریا دھیان میں اس کے ہونٹ
یوں بھی خود کو پیاسا رکھنا کتنا مشکل ہے
تم نے معبد دیکھے ہوں گے یہ آنگن ہے یہاں
ایک چراغ بھی جلتا رکھنا کتنا مشکل ہے
داسی جانے ٹوٹے پھوٹے گیتوں کا یہ دان
سمے کے چرنوں میں لا رکھنا کتنا مشکل ہے
عشرت آفرین
No comments:
Post a Comment