Urdu Deccan

Friday, December 31, 2021

اثر صہبائی

 یوم پیدائش 28 دسمبر 1904


لطف گناہ میں ملا اور نہ مزہ ثواب میں

عمر تمام کٹ گئی کاوش احتساب میں


تیرے شباب نے کیا مجھ کو جنوں سے آشنا

میرے جنوں نے بھر دیے رنگ تری شباب میں


آہ یہ دل کہ جاں گداز جوشش اضطراب ہے

ہائے وہ دور جب کبھی لطف تھا اضطراب میں


قلب تڑپ تڑپ اٹھا روح لرز لرز گئی

بجلیاں تھیں بھری ہوئی زمزمۂ رباب میں


چرخ بھی مے پرست ہے بزم زمیں بھی مست ہے

غرق بلند و پست ہے جلوۂ ماہتاب میں


میرے لیے عجیب ہیں تیری یہ مسکراہٹیں

جاگ رہا ہوں یا تجھے دیکھ رہا ہوں خواب میں


میرے سکوت میں نہاں ہے مرے دل کی داستاں

جھک گئی چشم فتنہ زا ڈوب گئی حجاب میں


لذت جام جم کبھی تلخی زہر غم کبھی

عشرت زیست ہے اثرؔ گردش انقلاب میں


اثر صہبائی


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...