یوم پیدائش 12 دسمبر 1912
سایہ سا اک خیال کی پہنائیوں میں تھا
ساتھی کوئی تو رات کی تنہائیوں میں تھا
ہر زخم میرے جسم کا میرا گواہ ہے
میں بھی شریک اپنے تماشائیوں میں تھا
غیروں کی تہمتوں کا حوالہ بجا مگر
میرا بھی ہاتھ کچھ مری رسوائیوں میں تھا
ٹوٹے ہوئے بدن پہ لکیروں کے جال تھے
قرنوں کا عکس عمر کی پرچھائیوں میں تھا
گرداب غم سے کون کسی کو نکالتا
ہر شخص غرق اپنی ہی گہرائیوں میں تھا
نغموں کی لے سے آگ سی دل میں اتر گئی
سر رخصتی کے سوز کا شہنائیوں میں تھا
راسخؔ تمام گاؤں کے سوکھے پڑے تھے کھیت
بارش کا زور شہر کی انگنائیوں میں تھا
راسخ عرفانی
No comments:
Post a Comment