Urdu Deccan

Friday, December 17, 2021

راسخ عرفانی

 یوم پیدائش 12 دسمبر 1912


سایہ سا اک خیال کی پہنائیوں میں تھا

ساتھی کوئی تو رات کی تنہائیوں میں تھا


ہر زخم میرے جسم کا میرا گواہ ہے

میں بھی شریک اپنے تماشائیوں میں تھا


غیروں کی تہمتوں کا حوالہ بجا مگر

میرا بھی ہاتھ کچھ مری رسوائیوں میں تھا


ٹوٹے ہوئے بدن پہ لکیروں کے جال تھے

قرنوں کا عکس عمر کی پرچھائیوں میں تھا


گرداب غم سے کون کسی کو نکالتا

ہر شخص غرق اپنی ہی گہرائیوں میں تھا


نغموں کی لے سے آگ سی دل میں اتر گئی

سر رخصتی کے سوز کا شہنائیوں میں تھا


راسخؔ تمام گاؤں کے سوکھے پڑے تھے کھیت

بارش کا زور شہر کی انگنائیوں میں تھا


راسخ عرفانی


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...