یوم پیدائش 27 دسمبر 1936
نہ دوستی سے رہے اور نہ دشمنی سے رہے
ہمیں تمام گلے اپنی آگہی سے رہے
وہ پاس آئے تو موضوع گفتگو نہ ملے
وہ لوٹ جائے تو ہر گفتگو اسی سے رہے
ہم اپنی راہ چلے لوگ اپنی راہ چل
یہی سبب ہے کہ ہم سرگراں سبھی سے رہے
وہ گردشیں ہیں کہ چھٹ جائیں خود ہی بات سے ہات
یہ زندگی ہو تو کیا ربط جاں کسی سے رہے
کبھی ملا وہ سر رہ گزر تو ملتے ہی
نظر چرانے لگا ہم بھی اجنبی سے رہے
گداز قلب کہے کوئی یا کہ ہرجائی
خلوص و درد کے رشتے یہاں سبھی سے رہے
سحر انصاری
No comments:
Post a Comment