یوم پیدائش 23 دسمبر 1964
ممکن جہاں نہیں تھی وہاں کاٹ دی گئی
کچھ دن کی زندگی تھی میاں کاٹ دی گئی
مفلس جو تھے وہ پیاس کی شدت سے مر گئے
محلوں کی سمت جوئے رواں کاٹ دی گئی
میں نے بلند کی تھی صدا احتجاج کی
پھر یوں ہوا کہ میری زباں کاٹ دی گئی
تیری زمیں پہ سانس بھی لینا محال تھا
مجبور ہو کے زیست یہاں کاٹ دی گئی
میری سزائے موت پہ اک جشن تھا بپا
وہ شور تھا کہ میری فغاں کاٹ دی گئی
دست ہنر پہ نوک سناں پر غرور ہے
لیکن جری جو نوک سناں کاٹ دی گئی
پہلے تو بات بات پہ ٹوکا گیا مجھے
پھر تنگ آ کے میری عناں کاٹ دی گئی
ناصر امروہوی
No comments:
Post a Comment