یوم پیدائش 01 جنوری 1919
بے نیازی سے مدارات سے ڈر لگتا ہے
جانے کیا بات ہے ہر بات سے ڈر لگتا ہے
ساغر بادۂ گل رنگ تو کچھ دور نہیں
نگہ پیر خرابات سے ڈر لگتا ہے
دل پہ کھائی ہوئی اک چوٹ ابھر آتی ہے
تیرے دیوانے کو برسات سے ڈر لگتا ہے
اے دل افسانۂ آغاز وفا رہنے دے
مجھ کو بیتے ہوئے لمحات سے ڈر لگتا ہے
ہاتھ سے ضبط کا دامن نہ کہیں چھٹ جائے
آپ کی پرسش حالات سے ڈر لگتا ہے
میں جو اس بزم میں جاتا نہیں اشعرؔ مجھ کو
اپنے سہمے ہوئے جذبات سے ڈر لگتا ہے
حبیب اشعر دہلوی
No comments:
Post a Comment