یوم پیدائش 03 جنوری 1959
اس طرح مجھ سے وہ جینے کی ادا لے جائے گا
باتوں ہی باتوں میں منزل کا پتہ لے جائے گا
دشمن تہذیب مشرق دے کے کچھ عشرت کے خواب
ہم سے تہذیب و تمدن کی قبا لے جائے گا
زندگی کے اس سفر میں خارزاروں سے نہ ڈر
سوئے منزل تجھ کو تیرا حوصلہ لے جائے گا
دوست بن کر عمر بھر جس نے دیا مجھ کو فریب
وہ اگر دشمن بھی بن جائے تو کیا لے جائے گا
گردشیں کھیلیں گی کب تک میرے استقلال سے
عزم کا سیل رواں ان کو بہا لے جائے گا
میرے سر پر ہے مری ماں کی دعا کا سائباں
یہ مجھے غم کی تمازت سے بچا لے جائے گا
میرے دل میں جو کبھی رہتا تھا دھڑکن کی طرح
کیا خبر تھی وہ مری نیندیں چرا لے جائے گا
دشمنی کا یہ شجر برباد کر دے گا تمہیں
دولت امن و سکوں بھی یہ اڑا لے جائے گا
ریاض ساغر
No comments:
Post a Comment