یوم پیدائش 01 جنوری 1959
آئینہ توڑ کے حیرت میں پڑا رہتا ہوں
عکس چننے کی جسارت میں پڑا رہتا ہوں
ایک منظر میں کئی روپ نظر آتے ہیں
کبھی وحدت کبھی کثرت میں پڑا رہتا ہوں
دن تو دفتر میں کسی طور گزر جاتا ہے
رات زخموں کی اذیت میں پڑا رہتا ہوں
دوست آتے ہیں تو رونق بھی چلی آتی ہے
ورنہ میں درد کی حالت میں پڑا رہتا ہوں
ایک بھی لمحہ میں غافل نہیں ہوتا تم سے
ہر گھڑی ایک مشقت میں پڑا رہتا ہوں
کیسے احباب مرے دکھ کا مداوا کرتے
دھوپ نکلے بھی تو ظلمت میں پڑا رہتا ہوں
رشید احمد
No comments:
Post a Comment