تاریخ وفات 10 جنوری 1968
سن ولادت: 1905
نگاہِ ناز کی پہلی سی برہمی بھی گئی
میں دوستی کو ہی روتا تھا دشمنی بھی گئی
یاد اور ان کی یاد کی اللہ رے محویت
جیسے تمام عمر کی فرصت خرید لی
نہ پوچھ کیسے گزاری ہے زندگی میں نے
گزارنے کی تھی اک شے گزار دی میں نے
محبت اور مائلؔ جلد بازی کیا قیامت ہے
سکون دل بنے گا اضطراب آہستہ آہستہ
نظر اور وسعت نظر معلوم
اتنی محدود کائنات نہیں
میں نے دیکھے ہیں دہکتے ہوئے پھولوں کے جگر
دل بینا میں ہے وہ نور تمہیں کیا معلوم
دعوۂ انسانیت مائلؔ ابھی زیبا نہیں
پہلے یہ سوچو کسی کے کام آ سکتا ہوں میں
سیلاب عشق غرق کن عقل و ہوش تھا
اک بحر تھا کہ شام و سحر گرم جوش تھا
مائل لکھنوی
No comments:
Post a Comment