یوم پیدائش 06 فروری 1954
اور کیا رہ گیا ہے ہونے کو
ایک آنسو نہیں ہے رونے کو
خواب اچھے رہیں گے ان دیکھے
خاک اچھی رہے گی سونے کو
تو کہیں بیٹھ اور حکم چلا
ہم جو ہیں تیرا بوجھ ڈھونے کو
چشم نم چار اشک اور ادھر
داغ اک رہ گیا ہے دھونے کو
بیٹھنے کو جگہ نہیں ملتی
کیا کریں اوڑھنے بچھونے کو
یہ مہ و سال چند باقی ہیں
اور کچھ بھی نہیں ہے کھونے کو
نارسائی کا رنج لائے ہیں
تیرے دل میں کہیں سمونے کو
آج کی رات جاگ لو یارو
وقت پھر حشر تک ہے سونے کو
یاد بھی تیری مٹ گئی دل سے
اور کیا رہ گیا ہے ہونے کو
ابرار احمد
No comments:
Post a Comment