یوم پیدائش 29 مارچ 1867
جتاتے رہتے ہیں یہ حادثے زمانے کے
کہ تنکے جمع کریں پھر نہ آشیانے کے
سبب یہ ہوتے ہیں ہر صبح باغ جانے کے
سبق پڑھاتے ہیں کلیوں کو مسکرانے کے
ہزاروں عشق جنوں خیز کے بنے قصے
ورق ہوے جو پریشاں مرے فسانے کے
ہیں اعتبار سے کتنے گرے ہوے دیکھا
اسی زمانے میں قصے اسی زمانے کے
قرار جلوہ نمائی ہوا ہے فردا پر
یہ طول دیکھیے اک مختصر زمانے کے
نہ پھول مرغ چمن اپنی خوشنوائی پر
جواب ہیں مرے نالے ترے ترانے کے
اسی کی خاک ہے ماتھے کی زیب بندہ نواز
جبیں پہ نقش پڑے ہیں جس آستانے کے
سائل دہلوی
No comments:
Post a Comment